GuidePedia

2




ابو کب گھر آئیں گے؟؟ 

تحریر : شہزادہ علاؤالدین پیرکزئی

امی امی! شمائلہ اور رضیہ نے اپنی عید کےلیے شاپنگ کر لی ہیں۔ اُنھوں خوبصورت کپڑے ، جوتے اور میک اپ کے سامان اور ڈھیر ساری چیزیں خرید لی ہیں۔ امی پلیز مجھے بھی شاپنگ کرنی ہے۔ سلطانہ رو رو کر اپنی ماں کا دوپٹہ کھنچ رہی تھی۔

شمائلہ اور رضیہ پڑوس میں رہتی ہیں اور وہ سلطانہ کے اسکول میں بھی پڑھتی ہیں۔  

امی افطاری کی تیاری میں مگن اپنی بچی کی ضد اور رونے پہ زیادہ دھیان نہیں دے رہی تھی۔ جب ابو آجائیں گے تو میں کہہ دونگی۔ امی نے کہا۔ اسی دوران ابو گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔ میری شہزادی کیوں رو رہی ہے۔ آلے آلے میری لاڈلی میری پری ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ ابو کی آواز سنتے ہی وہ دوڑ کر اپنے ابو کے گلے لگ جاتی ہیں۔ 

ابو ابو! میری کلاس کی سہیلیوں  شمائلہ اور رضیہ نے عید کےلیے شاپنگ کر لی ہیں اور آپ نے میرے لئے کچھ نہیں خریدا ہے۔ابو نے فوری جواب دیا، کل تنخواہ لے کر اپنی گڑیا رانی کو شاپنگ کے لیے  لےجاوں گا اور آپکی سہیلیوں سے زیادہ چیزیں آپ کے لیے خریدونگا ۔ سلطانہ:
ابو وعدہ کریں۔  اچھا بابا وعدہ رہا۔ ماتھے کو چومتے ہوئے۔

اُدھر سے امی کی آواز آئی آپ نے ہی بگاڑا ہے اِس بچی کو ! 
گیس ، بجلی اور پانی کے بل  بھی دینےہیں، اوپر سے راشن ختم ہوگیا ہے اور ادھر سے غفور بھائی بھی اپنے پیسے مانگ رہے ہیں جو آپ نے میری بیماری کیلئے دستی قرض لیا تھا۔ وہ ایک ہی سانس میں ساری پریشانیاں  اور گھر کے حالات اس کے سامنے رکھ رہی تھی۔

اچھا بابا سب کام ہو جائیں گے غم نہ کرو میں ہوں نا ! 
 آپ تو کتنی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ کچھ بچت کرتے ہیں تاکہ تنگ دنوں میں ہمیں کسی کے آگے محتاج نہ ہونا پڑے۔  کل عید کی ایڈوانس تنخواہ ہے اللہ مہربان ہے۔ 
آپ تو سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں ساری پریشانیاں میں جھِیلتی ہوں۔ 

اگلے دن وہ ڈیوٹی پہ روانہ ہوا، سلطانہ ابو کے جوتوں کو دیتی ہوئی بولی ابو اپنے وعدے کو بھولنا نہیں ! ورنہ آپ کی بیٹی آپ سے کٹی۔
ہاہاہاہا میری لاڈلی جب مجھ سے کٹی تو میں کس سے باتیں کرونگا،  اور کون مجھے پیار کرے گی ابا نے جواب دیا؟۔ بابا میں نے شمائلہ اور رضیہ کو بول دیا ہے کہ آج رات افطاری کے بعد ہم شاپنگ کے لئے جارہے ہیں۔ ٹھیک بیٹا افطاری کے بعد لازما جائیں گے۔سلطانہ کی تکرار سن کر اس کی ماں بول اٹھی،  ارے آپ کے ابو کو دیر ہو رہی ہے انھیں جانے دو۔ 

افطاری کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا تھا سلطانہ بے چینی سے ابو کے انتظارمیں گھڑی کو بار بار دیکھ کر امی سے پوچھتی ، 
 امی آج آذان کیوں نہیں ہو رہی اور ابو کب آئیں گے؟ 
ساتھ ساتھ ننھی سلطانہ امی کا ہاتھ بھی بٹھا رہی تھی تاکہ ابو جلدی افطاری کرے اور وہ شاپنگ کے لئے نکل سکیں۔ 
اس دوران رضیہ اور اُسکی امی شکیلہ داخل ہوئیں، وہ اپنے ساتھ افطاری کے لئے پکوڑے لائی تھیں ۔ 

رضیہ کو دیکھتے ہی سلطانہ خوشی سے کہہ اٹھی رضیہ میں اور ابو آج شاپنگ کے لئے جا رہے ہیں اور وہ  مجھے ڈھیر ساری شاپنگ کروا رہے ہیں۔ میں آپ سے خوبصورت اور اچھی چیزیں خریدوں گی۔ رضیہ اور سلطانہ کی امی دونوں کی باتیں سن کر محظوظ ہو رہی تھیں۔ اچانک دروازے پہ دستک ہوئی۔ سلطانہ فورا  دوڑتی ہوئی بولی  ابو آگئے ابو آگئے۔ 
مگر دروازہ کھلتے ہی سامنے غفور چچا کو دیکھکر زور سے آواز لگائی امی غفور چچا آئے ہیں۔ 

خیر ہے ! افطاری کے وقت غفور بھائی کا کیسے آنا ہوا شاہد وہ اپنے پیسے لینے آئے ہونگے مگر افطاری سے پانچ منٹ پہلے؟؟ مریم نے دل ہی دل میں یہ کہا۔

دروازے کے قریب پہنچتے ہی سلام وعلیکم غفور بھائی ! غفور کا چہرہ اترا ہوا تھا،اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی  وہ ۔۔۔۔ بھابی وہ حاجی عطاءاللہ بھائی ۔۔۔ غفور چچا بات پوری نہ کر پائے تھے کہ مریم نے بات کاٹی، وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچے ہیں میں نے کل ان کو آپکا پیغام دے دیا تھا انشاء اللہ آپکو آپکی امانت آج رات مل جائے گی۔ 

غفور: نہیں بھابھی میں پیسوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ کہنے آیا ہوں کہ عطاء بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ شدید زخمی ہیں ۔ کسی  ظالم نے اپنی گاڑی سے روند ڈالا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جیسے مریم کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ روتی ہوئی دعا کرنے لگی یا اللہ رحم ! کب  ؟ کیسے ؟ اور کہاں ؟ 
ابھی کچھ دیر پہلے مجھے فون کرکے بتایا گیا وہ ہسپتال کے آیمرجینسی وارڈ میں داخل ہیں ۔ رضیہ کی امی  شکیلہ بھی رونے کی آواز سن کر آگئ ، خیر ہےکیا ہواہے؟؟ 
وہ سلطانہ کے ابو کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں ۔ 
غفور بھائی کے موبائل پہ کال آئی جسے سن کروہ ایکدم خاموش ہوگیا اُسکے آنسو نکل گئے کس کا فون تھا؟؟ مرینے پو اور ب


وہ بھابھی عطاء بھائی ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ۔ اس سے پہلے کہ شکیلہ مریم کو سنبھالتی وہ صدمے سے بے ہوش ہوگئ ۔ بہن آپ اسکو سنبھالیں میں ہسپتال جاتا ہوں اور باقی رشتہ داروں کو بھی خبر کیئے دیتا ہوں۔ 

اُدھر سے آذان شروع ہوئی ، سلطانہ اور رضیہ دوڑتی ہوئی امی کے پاس آئیں زور زور سے کہنے لگی ا امی آذان ہوگئی ابو آتے ہونگے جلدی کریں پھر ہمیں دیر ہو جائے گی۔ آنٹی آپ امی سے کہیں نا، اُٹھ جائیں 
یہ کیوں سو یہ ہوئی ہے؟ ابو کے آنے کا وقت ہوگیا ہے اور آذان بھی ہوگئ ہے مگر امی سوئی ہوئی ہے ۔ مریم بھی معصوم کی باتیں سن کر خود پہ قابو نہ رکھ سکیں اور بے اختیار رو پڑی۔ 

آنٹی ابو آ جائیں میں امی کی شکایت کر دونگی اور میں ابو سے نارض ہوں اُس نے اپنا وعدہ توڑا ہے اب میں اُن سے کھبی بھی نہیں بات نہیں کروں گی۔ 
آنٹی ابو کب آئیں گے؟؟

Post a Comment

District Champion

District Champion
Rizwan Shah Cricket CLub Kharan

Free News Updates

Free News Updates

Coming Soon

Coming Soon

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں
 
Top
Blogger Widgets