GuidePedia

0

اسٹیبلشمنٹ کے  ایجنٹ
- --------------------------
1988 میں اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر مخالفت کے باوجود بینظیر 88 سیٹیں جیت کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ وزیرداخلہ کیلئے اسے کسی دبنگ پنجابی کی تلاش تھی اور اس کیلئے نظرانتخاب اعتزاز احسن پر پڑی جو کہ لاہور سے بھاری مارجن سے جیتا تھا اور اس وقت ایک ینگ اور پڑھے لکھے سیاستدانوں میں شمار ہوتا تھا۔

اعتزاز احسن نے نہ صرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن بلکہ پنجاب میں وزیراعلی نوازشریف کو بھی بے حال کررکھا اور انہیں آئے دن یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں اعتزاز ان کے بندے توڑ کر اپنی صوبائی حکومت نہ بنالے۔

اسٹیبلشمنٹ کی زیرسرپرستی نوازشریف نے بینظیر اور اعتزاز کا شکار ایک ہی تیر سے کرنے کا فیصلہ کیا  اور 1989 میں نوازشریف کی ایما پر جنگ گروپ کے انوسٹی گیٹو صحافی کامران خان نے ایک سٹوری بریک کردی جس میں وزیرداخلہ اعتزاز احسن پر بھارتی حکومت کو علیحدگی پسند سکھوں کی فہرستیں دینے کا الزام لگا دیا۔

اس کے ساتھ ہی آئی جے آئی میں شامل تمام جماعتیں پنجے جھاڑ کر باہر نکل آئیں اور اعتزاز احسن اور بینظیر کے پتلے جلانے شروع کردیئے۔ پرائیویٹ چینلز اس وقت تھے نہیں، سرکاری ٹی وی پر بینظیر کا کنٹرول تھا، چنانچہ نوازشریف نے پرنٹ میڈیا کی طرف ہڈی پھینکی اور فوراً سے پہلے زید اے سلہری (مرحوم)، عبدالقادرحسن، مجیب الرحمان شامی، الطاف حسن قریشی سمیت مشہور کالم نویسوں نے بینظیر حکومت کی غداری پر اخبارات کے صفحے  سیاہ کرنے شروع کردیئے۔ ان کی دیکھا دیکھی معتدل صحافیوں کو  بھی لگا کہ اگر وہ چپ رہ گئے تو شاید مؤرخ انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہ کرے، چنانچہ وہ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق شور مچانا شروع ہوگئے۔

اسی ہنگامے میں نوازشریف نے الطاف حسین کے ساتھ مل کر کراچی میں ایک جلسہ رکھا اور اس میں بینظیر کو سیکیورٹی رسک قرار دے دیا۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاستدان اور ایک منتخب وزیراعظم پر اس طرح کا الزام لگا تھا۔

بینظیر نے فوری طور پر متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ اس الزام کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا مزاج کچھ اور تھا، اس لئے بینظیر کچھ نہ کرسکی اور پھر 6 اگست 1990 کو اپنی حکومت تڑوا بیٹھی جس میں کرپشن کے ساتھ ساتھ ملک کے ساتھ غداری کا سنگین الزام بھی عائد کیا گیا۔

کیا اعتزاز احسن نے واقعی سکھوں کی وہ فہرستیں راجیو گاندھی کو دی تھیں؟  اس کا تو جواب آج تک نہ مل سکا لیکن 1990 سے لے کر 1999 تک نوازشریف دو مرتبہ حکومت میں رہا لیکن ایک دفعہ بھی اس نے اس الزام پر کوئی کاروائی نہ کی۔ 1999 میں جب نوازشریف کو مشرف نے جیل میں ڈالا تو کلثوم نواز ہوائی چپل پہنے اسی اعتزاز کے در پر آئی اور ہاتھ جوڑ کر منت کی کہ اعتزاز احسن نوازشریف کا وکیل بن کر اسے بچا لے۔

پھر ظالم تاریخ نے ہمیں وہ دن بھی دکھایا جب نوازشریف کو اپنی سلامتی  اسی غدار اعتزاز احسن کی قابلیت میں نظر آنا شروع ہوگئی اور اس نے اپنی جائیدادوں کی تمام تفصیلات اعتزاز کے حوالے کردیں تاکہ وہ اس کا مقدمہ صحیح طرح لڑ سکے۔

جس اسٹیبلشمنٹ نے 1989 میں بینظیر پر سیکیورٹی رسک ہونے کا الزام دھرا تھا، اسی نے آگے چل کر 2007 میں بینظیر کے پاؤں پکڑتے ہوئے اسے این آر او کرنے کی آفر کی۔

بینظیر جب پاکستان واپس آنے لگی تو اس وقت عدلیہ تحریک عروج پر تھی۔ مشرف کو لگا کہ اگر بینظیر نے عدلیہ تحریک میں حصہ ڈال دیا تو پھر اس کی حکومت جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس نے بینظیر کو پیغام بھجوایا کہ وہ الیکشن سے پہلے واپس نہ آئے لیکن بینظیر نے یہ پیشکش مسترد کردی۔

جب بینظیر نہ مانی تو اس وقت ایک صحافی نے ایک کالم لکھا جس میں بینظیر کو انڈیا اور کرزئی حکومت کے ساتھ رابطے رکھنے کا الزام عائد کردیا۔ اپنے کالم میں اس صحافی نے یہ بھی لکھا کہ بینظیر امریکی آشیرواد پر حکومت میں آنے کے بعد انڈیا اور کرزئی کے ساتھ مل کر طالبان اور تحریک طالبان کے خلاف مشترکہ کاروائی کرے گی۔

اس کالم کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ بینظیر واپس تو آگئی لیکن اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ بینظیر کے کچھ غیرملکی دوستوں نے اسے وارننگ بھی دی لیکن وہ ایک بہادر عورت تھی، اس نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ پھر ایک دن پنڈی کے جلسے میں طالبان گروپ کی ایک انتہا پسند تنظیم نے بینظیر پر حملہ کرکے اسے شہید کرڈالا۔

جاننا چاہیں گے کہ وہ صحافی کون تھا جس نے بینظیر پر کرزئی کا پارٹنر ہونے کا الزام لگایا تھا؟ یہ کوئی اور نہیں بلکہ "ا خلاق یافتہ " صحافیوں کی سویٹ ڈش سلیم صافی تھا۔

Post a Comment

District Champion

District Champion
Rizwan Shah Cricket CLub Kharan

Free News Updates

Free News Updates

Coming Soon

Coming Soon

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں
 
Top
Blogger Widgets