GuidePedia

0

ویسے تو صحافت ہو یا قلم سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی سچائی پہ مبنی تحریر ہو، وہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں. لیکن ادارے نے جس جرات و جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’حال احوال‘‘ کو اس مقام پر لایا، وہ کسی صحافتی انقلاب سے کم نہیں ہے. بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اہلِ قلم کو عزت و احترام نہیں دیا جاتا ہے. جس ملک میں علم و قلم کے پیروکاروں کو عزت واحترام نہیں دیا جاتا ہے، اس معاشرے میں ترقی تو دور کی بات ہے وہاں ضمیر کا ہونا لمحہ فکریہ ہوگا.

اسلام آباد میں سینٹ چیئرمین رضا ربانی کی تقریر اس تمام حقیقت کی دلیل ہے جس پر ہم خاموش ہیں. پاکستان میں تعلیم یافتہ طبقے کا استحصالی کوئی نئی بات نہیں ہے. کئی اہلِ قلم سچ کی پاداشت میں شہید ہوئے، کوئی صحافی کے روپ میں تو کوئی ادیب، استاد، طالب علم کے روپ میں قتل اور اغوا و ٹارگٹ ہوئے . پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان ادیبوں، صحافیوں، ٹیچرز، اسٹوڈنٹس کی متقل گاہ سمجھا جاتا ہے. بلوچستان کے اہم دانش ور، ادیب، ٹیچرز، اسٹوڈنٹس، صحافی اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دہی کے دوران شہید ہوئے. مختلف علاقوں میں صحافتی سوگ منایا گیا.

2010 سے لے کر 2014 تک لکھے پڑھے طبقات کے لیے سچ بولنا، لکھنا جیسے جرم سمجھا جاتا رہا. اس دوران شعبہ صحافت کی سرگرمیاں جیسے مسلح بغاوت تھی. صحافی رپورٹنگ کرنے میں جان ہتھلی پر رکھ کر ہڑتالوں میں سنسان گلیوں میں کوریج کرتے تھے. ایسی کوئی رات نہیں تھی کہ دھماکوں کی آواز انہیں سنائی نہ دیتی تھی. دونوں اطراف دھمکیوں کا سلسلہ تھا. کئی روزنامہ اخباروں کے ایڈیٹر خبر لگانے اور نہ لگانے کی پاداش میں عدالتوں کا سامنا کرتے رہے. کئی علاقوں میں اخبارات کو بند کیا گیا. اس شورش میں میں کئی سیاسی پارٹیوں و طلبا تنظیموں کی جانب سے اخبارات و میڈیا کے بائیکاٹ کا سلسلہ بھی رہا. یہ مشکل گھڑیاں صحافیوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھیں.

بلوچستان کے کئی صحافی فرض شناسی کی وجہ سے لقمہ اجل بنے. صحافیوں کے گھروں میں گھس کر قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا. ان کے بچو ں کو بھی نہیں چھوڑا گیا. ان میں ایک درد ناک واقعہ کبیر بلڈنگ کوئٹہ میں پیش آیا. اس دن کی سسکیاں و صحافیوں کے زارو قطار رونے کو کوئی بھول نہیں سکتا. ٹیبل پر پڑی سچ کی بے جان لاش اور کمرے میں دریا نما خون ان تمام مقتدر و طاقت وار قوتوں کے لیے سوالیہ نشان ہے. آن لائن نیوز ایجنسی میں بلوچستان کے مایہ ناز و دلیر صحافی ارشاد مستوئی، محمد یونس، غلام رسول اپنے کئی یادوں کو چھوڑ کر سچ کی راہ میں امر ہوگئے. لیکن ان کے بشمول بلوچستان بھر کے صحافیوں کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے، اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری و ساری رہی. پنجگور میں رحمت اللہ عابد اپنے قریبی علاقے وشبود میں پانچ گولیوں کا نشانہ بنے اور اپنے پیچھے بوڑھی ماں بہنوں کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے. ہم ان تمام اہلِ قلم کی جہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں.

.

Post a Comment

District Champion

District Champion
Rizwan Shah Cricket CLub Kharan

Free News Updates

Free News Updates

Coming Soon

Coming Soon

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں

اپناخود کا ویب ساءٹ بنائیں
 
Top
Blogger Widgets